میری ایک بڑی بہن ہے سعدیہ، اس کی شادی کراچی میں ہوئی تھی۔
میں نویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ پر میرا فگر اور قد کسی اٹھارہ سال کی لڑکی جتنا تھا۔
قدرت نے حسن اور دل کھول کر دیا تھا۔ مجھے ابو جٹنی کے نام سے پکارتے تھے۔ میرے ہمسائے
میں ابو کے دوست ریاض رہتے تھے، جن کے پاس میں ٹیوشن پڑھتی تھی۔ وہ اکیلے رہتے تھے۔
ان کی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ وہ ایک گورنمنٹ ٹیچر تھے۔ وہ یکم جون کی سخت دوپہر تھی۔
ویسے تو میں شام کو جاتی تھی پڑھنے، پر پیپرز سر پر تھے اور مجھے تیاری کرنی تھی، تو
میں اسکول سے آکر کھانا کھا کر چل پڑی ٹیوشن پڑھنے۔
ریاض صاحب کے گھر کی بیل بجائی، کافی دیر تک کوئی نہیں نکلا۔
میں واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہی تھی کہ دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔ سر ریاض نے دروازہ
کھولا۔ سر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ سر نے کپڑے بھی سونے والے پہنے ہوئے تھے، انہوں
نے بنیان اور دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں نے سر کو نیند سے اٹھا
دیا۔ میں نے کہا: سر، آپ آرام کریں، میں شام کو آ جاؤں گی۔ سر: نہیں، کوئی بات نہیں،
اندر آ جاؤ۔
میں اندر آ گئی۔ سر منہ ہاتھ دھونے واش روم میں چلے گئے۔
میں اندر آ کر بیٹھ گئی اور کتابیں کھول لیں۔ تھوڑی دیر بعد سر بھی آ کر بیٹھ گئے۔
سر کی عمر تقریباً پینتالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ سر کا رنگ کالا تھا اور سر کا رعب ایسا
تھا کہ محلے کے چھوٹے بڑے سب سر سے ڈرتے تھے۔ سر جب ڈانٹتے تھے، میں خود ڈر جاتی تھی،
حالانکہ آج تک سر نے مارا نہیں تھا۔
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سر اونگھ رہے تھے۔ میں نے دل
میں سوچا کہ سر میری وجہ سے ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ میری اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ سر
کو جگا سکوں۔ میں پھر سے کتابوں میں مگن ہو گئی تھی۔ ایک سوال سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
میں نے سوچا سر سے پوچھتی ہوں۔ میں نے کتاب سے سر اٹھایا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ سر
نیند میں تھے اور بے خیالی میں ان کی دھوتی سائیڈ پر ہو گئی تھی اور دھوتی سے ایک موٹا
تازہ کالا ناگ نما لنڈ باہر نکلا ہوا تھا۔ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے
رہ گیا تھا۔ میں نے جلدی سے نظریں دوبارہ کتاب پر جما لیں۔
میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کا لنڈ دیکھا تھا۔ میرے
دماغ میں وہی منظر چل رہا تھا۔ میں نے دوبارہ نظریں اٹھا کر دیکھا کہ شاید سر نے دھوتی
سہی کر لی ہو، پر وہاں ویسے ہی ان کا کالا ناگ نظر آ رہا تھا۔ میں نے پھر نظریں جھکا
لیں۔ پتا نہیں کیسی کشمکش چل رہی تھی میرے اندر۔ میں چاہ کر بھی کتاب میں دھیان نہیں
لگا پا رہی تھی۔ میں ایسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک سر کی آنکھ کھل گئی اور مجھے اپنے
لنڈ کو دیکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ میں نے جلدی سے سر جھکا لیا۔
سر نے جلدی سے اپنی دھوتی ٹھیک کی۔ مارے شرمندگی کے میرا
دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ سر پتا نہیں کیا سوچ رہے
ہوں گے میرے بارے میں کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔ سر اب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔ سر نے
کہا: کون سا سوال ہے جو سمجھ نہیں آ رہا؟
میں آٹھ کر سر کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور سر مجھے سوال سمجھانے
لگے، پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میرے دماغ میں مارے شرمندگی کے اور کچھ نہیں تھا۔
سر نے سوال سمجھا کر کہا: جاؤ جا کر سوال کر کے دکھاؤ۔ میں نے سر جھکا کر کاپی پکڑنی
چاہی جو انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی۔ سر نے جان بوجھ کر کاپی سائیڈ پر کر لی، جس
کی وجہ سے میرا ہاتھ ان کے لنڈ سے جا ٹکرایا۔ میں گھبرا کر ہاتھ پیچھے کرنے لگی تو
سر نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ گھبراہٹ کے مارے ایسا لگ رہا تھا گویا
جسم میں جان ہی نہ ہو۔
سر نے مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹ رکھ دیے اور مجھے کس کرنا شروع کر دیا۔ میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔
میں نے کسنگ کافی بار فلموں میں دیکھی تھی، پر کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی مرد
مجھے اس طرح کس کرے گا۔ سر کے منہ سے سگریٹ اور ایک عجیب سی سمیل آ رہی تھی۔ میں مکمل
اس کے رحم و کرم پر تھی۔ وہ کبھی ہونٹوں کو چوستا، کبھی اپنی زبان میرے منہ میں ڈال
دیتا۔ میں گم صم سر کے لنڈ پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھی تھی کہ کب سر مجھے چھوڑیں گے۔
سر کا ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہا تھا۔ میرے دونوں
مموں کو سر دبا رہے تھے۔ میری نپلز کو سر نے قمیض کے اوپر سے دبانا شروع کر دیا تھا۔
میری سانس پھول چکی تھی۔ میری سسکیاں نکلنا شروع ہو چکی تھیں۔ سر تھے کہ رکنے کا نام
ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں نے زور لگا کر سر سے اپنا آپ چھڑایا تو سر نے مجھے چھوڑ دیا۔
سر نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا تھا اور میری گردن کو پکڑ
کر مجھے اپنے لنڈ کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ میں نہیں سمجھی کہ سر کیا کرنا چاہ رہے
تھے۔ میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنی لگ پڑی۔ سر نے کہا: فوزیہ، اس کو منہ میں لو۔
میں ڈر گئی کہ ایک گندی چیز، جس سے پیشاب نکلتا ہے، اس کو سر منہ میں لینے کا کہہ رہے
ہیں۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھا، میں پانی پینے کے بہانے اٹھ کھڑی ہوئی۔
سر کی فریج ان کے بیڈ روم میں رکھی ہوئی تھی۔ سر کے بیڈ
روم میں داخل ہوتے ہی میری نظر سر کی ٹیبل پر پڑی۔ میں حیران ہو گئی۔ وہاں شراب کی
بوتل، جو کہ آدھی خالی تھی، پڑی تھی۔ اب میں سمجھ گئی کہ سر کے منہ سے سمیل کیوں آ
رہی تھی اور ان کی آنکھیں لال کیوں ہو رہی تھیں۔ میں نے فلموں اور ڈراموں میں شراب
پیتے لوگوں کو دیکھا تھا، اس لیے میں بوتل دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔
میں ڈر گئی۔ دل میں تہیہ کر لیا کہ پانی پیتے ہی گھر چلی
جاؤں گی۔ میں نے فریج سے پانی نکالا اور بوتل کو منہ لگا لیا۔ ابھی پانی پی ہی رہی
تھی کہ سر نے مجھے پیچھے سے آ کر دبوچ لیا۔ میرے ہاتھ سے بوتل چھوٹ کر نیچے گر گئی۔
میں خود کو چھڑانا چاہ رہی تھی، پر کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ ابھی کشمکش جاری تھی
کہ سر نے مجھے ساتھ پڑے بیڈ پر پٹخ دیا۔ میں منہ کے بل بیڈ پر جا گری۔ ابھی سنبھل ہی
نہیں پائی تھی کہ سر میرے اوپر چڑھ گئے۔
میں نے اٹھنے کی کوشش کی، پر سر نے ایک ہاتھ سے مجھے گردن
سے پکڑ کر بیڈ پر الٹا لٹائے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری شلوار گھٹنوں تک اتار دی۔
میں دیکھ نہیں پا رہی تھی کہ سر کیا کرنے والے ہیں۔ میں پیٹ کے بل بیڈ پر لیٹی ہوئی
تھی۔ سر نے گردن سے پکڑ رکھا تھا اور میرا منہ بیڈ کی طرف تھا۔ ٹانگوں پر سر بیٹھے
تھے۔ میں بالکل بے بس ہو چکی تھی۔
سر نے اچانک اپنے ہاتھ پر تھوک دیا اور تھوک میری چوت پر
لگا دیا اور اچانک کوئی گرم چیز میری چوت پر رگڑنا شروع کر دی۔ میں سمجھ گئی کہ یہ
سر کا لنڈ ہے۔ اب بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے سر کو واسطے دینا شروع
کر دیے۔ ابھی میں منتیں کر ہی رہی تھی کہ سر نے ایک جھٹکا دیا۔ میرے الفاظ منہ میں
ہی تھے، ان کی جگہ ایک زوردار چیخ نے لے لی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے جلتی ہوئی
گرم سلاخ میری چوت میں ڈال دی ہو۔
میں تڑپ اٹھی۔ کوشش کرنی لگ پڑی نیچے سے نکلنے کی، پر میں
پوری طرح قابو میں آ چکی تھی۔ ابھی سنبھل ہی نہ پائی تھی کہ سر نے دوسرا جھٹکا مارا۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری ٹانگوں
کے بیچ کی جگہ چِر گئی ہو۔ میری چیخ کمرے میں گونج چکی تھی۔ ہائے امی، میں مر گئی…
اسے باہر نکالو… میں مر جاؤں گی…
مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چاقو میری چوت میں مارا گیا
ہو۔ میں بری طرح تڑپ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں سر کے نیچے ذبح کی ہوئی
مرغی کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ سر کو میری حالت پر کوئی رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ کسی
وحشی کی طرح مجھ پر ٹوٹے پڑے تھے۔ پیچھے سے میری گردن پر کاٹ رہے تھے، کبھی میری کان
کی لو کو منہ میں لے کر چوس رہے تھے۔
سر نے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی تھی۔ ابھی چوت کا درد سے
سنبھل نہ پائی تھی کہ سر کا لنڈ، جو میری چوت میں تباہی پھیلا رہا تھا، وہ باہر نکل
آیا۔ سر نے دوبارہ اندر ڈالنے کی کوشش کی، پر نشے میں ہونے کی وجہ سے سر کو پتا نہیں
لگا اور سر نے لنڈ میری گانڈ پر رکھ کر زور سے جھٹکا مارا تو لنڈ کا کچھ حصہ میری گانڈ
کو چیرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔
مجھے لگا میرا سانس رک گیا ہو۔ میں مچھلی کی طرح تڑپ اٹھی۔
میری اتنی زور سے چیخ نکلی کہ سر بھی گھبرا کر میرے اوپر سے اتر آئے۔ میں پورے بیڈ
پر پانی سے نکالی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ کسی نے گانڈ میں مرچیں
ڈال دی ہوں۔ کچھ دیر بعد درد برداشت کے قابل ہوا تو میں اٹھ بیٹھی۔
میری نظر اپنی ٹانگوں اور بیڈ شیٹ پر پڑی تو خون دیکھ کر
میں گھبرا گئی تھی۔ رو رو کر پہلے ہی گلا خشک ہو چکا تھا۔ سر نے پانی لا کر مجھے پلایا۔
میں نے سر کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ سر، مجھے جانے دیں۔ سر نے دیکھا کہ میں کچھ سنبھل
گئی ہوں تو مجھے پیچھے دھکیل کر میری شلوار اتار دی اور دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ
کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: پریشان نہ ہو، اب درد نہیں ہوگا اور نہ ہی اور خون نکلے
گا، اور میں خیال رکھوں گا کہ میرا لنڈ اب تمہاری گانڈ میں نہیں جائے۔
میرے منہ سے بس ایک ہی جملہ نکل رہا تھا: سر، مجھے جانے
دیں۔ سر نے کہا: بس پانچ منٹ اور، اس کے بعد تم چلی جانا۔ سر نے دوبارہ لنڈ پر تھوک
لگایا اور میری چوت پر رگڑنے لگے۔ میں نے خود کو دوبارہ درد کے لیے ذہنی طور پر تیار
کر لیا تھا۔ سر نے اب آہستہ آہستہ اندر ڈالنا شروع کیا۔ درد کی لہر دوبارہ اٹھی چوت
میں، پر اس بار اتنا درد نہیں ہو رہا تھا، برداشت کے قابل تھا۔
سر نے کہا: تمہاری چوت میں ابھی تک آدھا لنڈ ڈال سکا ہوں۔
میں سوچ میں پڑ گئی کہ آدھے لنڈ نے مجھے اتنا تڑپایا ہے تو پورا لنڈ کیا غضب ڈھائے
گا۔ میں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے کہ جتنا گیا ہے، اتنا بہت ہے۔ سر نے کہا: ٹھیک ہے،
پر میرے ساتھ تعاون کرو، جیسا کہوں گا کرنا پڑے گا۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ تو سر نے کہا: قمیض اوپر کرو۔ میں
نے اپنی قمیض اوپر کر دی۔ سر نے میرے پستانوں پر اپنا منہ رکھ دیا اور بھوکے جانور
کی طرح نوچنے اور کاٹنے لگا۔ میری نپلز کو منہ میں لے کر چوسنے لگا، ساتھ ہی ساتھ جھٹکے
مار رہا تھا۔ مجھے ہر جھٹکے پر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میری چوت چِرتی جا رہی ہے۔ پورے
کمرے میں میری سسکیاں اور آہیں گونج رہی تھیں۔
میں دعا کر رہی تھی کہ جلد سے جلد یہ کام پورا ہو اور میں
گھر جاؤں۔ تھوڑی دیر بعد سر نے ایک زوردار چنگھاڑ کی آواز نکال کر میرے اوپر گر گئے۔
مجھے ایسا لگا کہ کسی نے کوئی گرم ابلتا ہوا سیسہ اندر ڈال دیا ہو۔ سر کے جسم کو جھٹکے
لگ رہے تھے۔ میرے اندر لگ رہا تھا کہ کسی نے گرم فوارہ چلا دیا ہو۔
تھوڑی دیر بعد سر نے اپنا لنڈ نکال دیا اور اٹھ کر بیٹھ
گئے۔ میں بے سدھ لیٹی ہوئی تھی۔ میرے جسم میں جان نہیں تھی کہ میں اٹھ سکوں۔ جیسے تیسے
کر کے اٹھ کر میں نے بے اختیار چوت کی طرف نگاہ ماری کہ کہیں دوبارہ خون تو نہیں نکل
آیا، پر اب خون کی جگہ گاڑھا زرد پانی نکل رہا تھا۔ میری ٹانگیں اور بستر چوت سے نکلنے
والے پانی نے گیلی کر دی تھیں۔
میں نے روتے ہوئے شلوار پہننا شروع کر دی۔ حالانکہ میرے
جسم میں جان تک نہ تھی، پر جیسے تیسے کر کے شلوار پہن لی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ کھیل
دوبارہ نہ شروع ہو جائے۔ سر بے سدھ ہو کر سو گیا تھا۔ میری عزت کو تار تار کر کے کیسے
مزے سے سو گیا تھا۔ اور میں گرتے پڑتے جیسے تیسے کر کے اپنے گھر پہنچ گئی۔
میری چال اور بکھرے بال میرے اوپر گزرے حال کا بتا رہے تھے۔
مجھے کچھ بتانا ہی نہ پڑا۔ میری حالت دیکھ کر امی کے ہاتھ سے برتن گر گئے۔ ان کی جہاندیدہ
آنکھوں نے مجھ پر گزری قیامت کو بھانپ لیا تھا۔ امی نے جلدی سے مجھے پکڑ کر کمرے میں
لے گئیں۔ امی نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا۔ میری آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔
امی نے پوچھا: کون تھا وہ بدبخت؟ میرے منہ سے صرف اتنا نکلا:
سر ریاض۔ اور میں دوبارہ رونے لگ پڑی۔ امی نے کہا: بیٹا، اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہارا
ابو گرم دماغ کا آدمی ہے۔ اس نے جو ش میں آ کر ریاض کو کچھ کر دیا تو اور جتنا ڈھنڈورا
پیٹیں گے، بدنامی اپنی ہو گی۔ ہم لڑکی والے ہیں۔ باقی ریاض کو میں خود دیکھ لوں گی۔
تم کپڑے بدل لو، میں تمہارے لیے گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔
میں لیٹی رہی۔ اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، نہ جسم میں
ہمت تھی اٹھنے کی۔ آنکھیں بند کرتی تو وہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ تھوڑی
دیر بعد امی میرے لیے گرم دودھ لے کر آ گئی۔ فوزیہ، ابھی تک کپڑے نہیں پہنے تم نے؟
تمہارا ابو آتا ہو گا، اس حالت میں تم کو دیکھ کر وہ سمجھ جائے گا۔ تمہاری شلوار پر
خون کے داغ ہیں۔
امی نے مجھے کپڑے پہنانے میں مدد کی۔ میں دوبارہ بیڈ پر
گر گئی۔ امی نے مجھے دودھ پکڑایا اور ساتھ تین گولیاں پکڑا دیں کہ: یہ کھا لو۔ میں
نے کہا: یہ کس چیز کی گولیاں ہیں؟ امی نے کہا: ایک پین کلر ہے اور دو گولیاں مانع حمل
کی ہیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا: وہ کس لیے؟ امی نے کہا: بس چپ کر
کے کھا لو۔ میں نے گولیاں کھا کر دودھ پی کر دوبارہ لیٹ گئی۔ میری آنکھ لگ گئی۔ شام
کو ابو کی بائیک کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا، میری عادت
تھی کہ جیسے ابو گھر آتے، میں سب سے پہلے ان کو ملتی تھی اور ان سے سامان پکڑ کر رکھتی
تھی۔ وہ روز میرے لیے بازار سے کچھ کھانے کے لیے لاتے تھے۔ اس دن مجھے سامنے نہ پا
کر پریشان ہو گئے تھے۔ امی سے پوچھا: فوزیہ بیٹی کہاں ہے؟ امی نے کہا: اس کی طبیعت
ٹھیک نہیں ہے۔
ابو نے جلدی سے سامان زمین پر رکھا اور میرے کمرے کی طرف
چل دیے۔ کمرے میں ابو داخل ہوئے اور کہا: کیا ہوا ہے میری جٹنی کو؟ میں نے ابو کی آواز
سن کر بھی آنکھیں نہیں کھولیں۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی ابو سے آنکھ ملانے کی۔ ابو
نے میرے ماتھے کو چھو کر دیکھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے روتا دیکھ
کر ابو پریشان ہو گئے اور کہا: روتی کیوں ہے پگلی؟ چل ڈاکٹر کو دکھا آتے ہیں۔
امی نے گھبرا کر کہا: نہیں، اب ٹھیک ہے۔ میں نے اس کو گولیاں
کھلا دی تھیں۔ بخار اتر گیا ہے۔ اس نے دراصل امتحانات کی کچھ زیادہ ہی ٹینشن لے لی
ہے۔ ابو نے کہا: چلو ٹھیک ہے، تم آرام کرو۔
ابو کے جانے کے بعد پتا نہیں کب آنکھ لگ گئی۔ اچانک رات
کو ڈراونا خواب دیکھ کر آنکھ کھل گئی تھی۔ خواب میں ایک خوفناک درندے کو اپنے اوپر
حملہ کرتے دیکھا تھا۔ دوبارہ سونے کی کوشش کرتے کرتے کافی دیر لگ گئی۔ صبح نو بجے دوبارہ
آنکھ کھلی تو ابو جا چکے تھے۔ جسم میں پورا درد تھا۔ اٹھتے کا دل نہیں کر رہا تھا۔
اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی تو امی ناشتہ بنا رہی تھیں۔
امی نے کہا: جاؤ نہا لو، پھر ناشتہ کرتے ہیں۔ میں نے واش
روم کی طرف چل پڑی۔ چلنے میں ٹانگوں کے بیچ اور گانڈ میں ہلکی ہلکی درد ہو رہی تھی۔
واش روم میں جا کر میں نے کپڑے اتارے تو دیکھا کہ میرے پستانوں پر ریاض کے دانتوں کے
نشان تھے، جو اب باقاعدہ زخم کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ چوت بھی سوجھی ہوئی لگ رہی
تھی۔
نہا کر میں باہر نکلی تو امی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ ہم دونوں
نے مل کر ناشتہ کیا، پر ہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے خاموشی سے
ناشتہ کیا، ورنہ میں پورے گھر میں سب سے زیادہ ہنس مکھ مشہور تھی۔ امی نے کہا: میں
ذرا بازار تک جا رہی ہوں، کنڈی لگا لینا۔
میں نے کہا: بازار سے زخموں پر لگانے والی مرہم تو لیتے
آنا۔ امی نے پوچھا: کہاں لگانی ہے؟
اس واقعے کے اثر سے نکلنے کے لیے مجھے ہفتہ لگ گیا۔ ایک
ہفتے تک میں اسکول بھی نہیں گئی۔ آہستہ آہستہ میں دوبارہ اپنی روٹین لائف میں واپس
آتی گئی اور میری ہنسی اور قہقہے بھی واپس آتے گئے، جس کی سب سے زیادہ خوشی میرے والد
کو ہوئی تھی، کیونکہ میری ہنسی کو دیکھ کر وہ جیتے تھے۔
میں نے اسکول جانا شروع کر دیا تھا۔ میری اسکول میں ایک
ہی دوست تھی، جس کا نام ماریہ تھا۔ اسکول میں اس کی ریپوٹیشن کچھ اچھی نہیں تھی۔ اس
کے بارے میں بہت سے قصے مشہور تھے۔ اس کا کافی لڑکوں کے ساتھ نام جوڑا جاتا تھا۔ پر
میں نے کبھی اس سے اس بارے میں بات نہیں کی تھی۔
میں جیسے اسکول میں داخل ہوئی تو سامنے سے ماریہ کو آتے
دیکھا۔ ماریہ نے کہا: کہاں گم ہو؟ ہفتے سے…
میں نے کہا: یار، میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔
ماریہ: یار، آج خدا سے کچھ اور مانگتی تو وہ بھی مل جاتا۔
شکر ہے تم آج آ گئی، مجھے تم سے ایک کام ہے۔
میں نے پوچھا: کیا کام ہے؟
ماریہ: یار، اسکول سے واپسی پر میں نے کام سے جانا ہے۔ اگر
میری امی کا فون آئے تو تم کہنا ماریہ میرے ساتھ ہے۔
میں: کہاں جانا ہے جو امی سے چھپا رہی ہو؟
ماریہ: پاگل، ڈیٹ پر جانا ہے۔ اب کیا امی کو بتا کر جاؤں؟
میں: یار، تم کب سدھرو گی؟
ماریہ نے مجھے جھپی ڈال کر آنکھ مار کر کہا: یار، زندگی
کا مزا جتنا لے سکتی ہو لوٹ لو، کل ہو نہ ہو۔
میں نے ہامی بھر لی تو ماریہ نے میرا گال چوم لیا۔ میں نے
ہنس کر کہا: بدتمیز، اب چھوڑو بھی مجھے۔ ہم دونوں ہنستے ہوئے کلاس میں داخل ہو گئے۔
آدھی چھٹی ہوئی تو ہم دونوں جا کر لان میں بیٹھ گئے۔ وہ
ہماری پسندیدہ جگہ تھی۔ وہاں درخت لگے ہوئے تھے، جن کی ٹھنڈی ہوا ہم دونوں کو بہت پسند
تھی۔ مجھے کچھ نوٹس اتارنے تھے، کیونکہ میں ایک ہفتے سے اسکول نہیں آئی تھی، تو کافی
کام جمع ہو گیا تھا۔ اگلے ہفتے پیپر تھے۔ لان میں بیٹھ کر میں نے ماریہ کو کہا: جاؤ
کچھ کھانے کو لے آؤ۔
ماریہ جانے لگی تو میں نے کہا: اپنا موبائل دینا، مجھے نوٹس
اتارنے ہیں، کیونکہ ہماری ٹیچرز نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا، جس میں سارے نوٹس
مل جاتے تھے۔ میں اپنا موبائل نہیں لاتی تھی اسکول، کیونکہ میڈم منع کرتی تھی موبائل
لانے کو۔ مجھے پتا تھا ماریہ اسکول میں موبائل لاتی تھی چوری چھپے۔
ماریہ تھوڑا ہچکچائی، پھر موبائل کا پاس ورڈ کھول کر واٹس
ایپ چلا کر مجھے دے دیا۔ خود کینٹین کی طرف چل دی۔ میں موبائل میں ابھی نوٹس پڑھ ہی
رہی تھی کہ ایک میسج آ گیا۔ میری عادت نہیں تھی ماریہ کے میسج پڑھنے کی، پر جیسے میرا
دھیان میسج بھیجنے والے کے نام پر پڑا تو بے اختیار میسج کھول لیا، کیونکہ وہ میسج
میرے نام سے آیا تھا۔
میں نے جب میسج کھولا تب پتا چلا کہ ماریہ نے میرے نام سے
کسی لڑکے کا نمبر سیو کیا ہوا تھا تاکہ کبھی اس کی کال آئے تو اس کی امی کو شک نہ پڑ
جائے۔ میں بے خیالی میں اوپر اسکرول کیا تو تصاویر دیکھ کر میں بری طرح چونک گئی۔ ماریہ
نے اس لڑکے کو اپنی ننگی تصاویر بھیجی تھیں، جن میں اس کے پستانوں اور چوت کی تصاویر
شامل تھیں۔ لڑکے نے بھی اس کو اپنے لنڈ کی تصاویر بھیجی تھیں۔ ماریہ نے اپنے میسجز
میں اس کو اپنی چوت میں لینے کے لیے بے تابی کا اظہار کیا تھا۔ ان سب کے علاوہ اور
بہت سی انگریزی ننگی تصاویر شامل تھیں۔
میں نے سامنے سے ماریہ کو آتے دیکھا تو جلدی سے موبائل لاک
کر دیا۔ ماریہ سموسے لے کر آئی تھی۔ میری اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اس کو کچھ شک پڑ گیا۔
اس نے جیسے ہی موبائل کو اوپن کیا تو سامنے وہی میسجز کھل گئے، کیونکہ میں نے گھبراہٹ
میں واٹس ایپ کو بند کرنا بھول گئی تھی۔ میں سر جھکا کر بیٹھی تھی۔ ہم دونوں کے بیچ
کوئی بات نہیں ہوئی کافی دیر۔
آخر کار ماریہ نے خاموشی کا پردہ چاک کیا۔ ماریہ: تم نے
میرے میسجز پڑھ لیے ہیں؟ کوئی بات نہیں، ہم دوست ہیں۔ ہم دونوں کے بیچ کوئی پردہ نہیں
ہونا چاہیے۔
میں: تم نے اپنی ایسی تصاویر کیوں اس کو بھیجی ہیں؟
ماریہ: یار، یہ سب چلتا ہے۔
میں: تم شادی سے پہلے اس انجان لڑکے کے ساتھ سیکس کرنا چاہ
رہی ہو؟
ماریہ ہنستے ہوئے: جان، سیکس بھی انسان کی بھوک کی طرح ایک
ضرورت ہے۔
میں: تم کب سے اس لڑکے کے ساتھ یہ سب کر رہی ہو؟
ماریہ: اس کے ساتھ فرسٹ ٹائم ہے، پر اس سے پہلے دو اور لڑکے
تھے، جن کے ساتھ میرا تعلق تھا۔
میں: اگر تمہاری امی کو پتا چل گیا تو؟
ماریہ: ان کو کیسے پتا چلے گا؟ تم بس کوئی بھانڈا نہ پھوڑ
دینا۔
میں: میں نہیں بتاؤں گی، پر تمہارے خون والے کپڑے دیکھ کر
امی سمجھ جائیں گی۔
ماریہ ہنستے ہوئے: پاگل، خون کیوں نکلے گا؟ میرا کون سا
پہلی بار ہے؟
میرے منہ سے اچانک نکل گیا: پر میری امی کو تو پتا چل گیا
تھا۔
ماریہ نے چونکتے ہوئے کہا: کیا مطلب؟ اس کا مطلب تم نے بھی
کسی سے سیکس کیا ہے؟
میں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا کہ چلو کلاس کا ٹائم ہو
گیا ہے۔ وہ میرے پیچھے پڑ گئی۔ میں نے کہا: اچھا، کل بتاؤں گی۔ میں نے دل میں سوچا
کہ کل تک اس کے ذہن سے بات نکل جائے گی۔
ہم کلاس میں چلے گئے۔ چھٹی کے بعد میں اسکول سے نکلی تو
ماریہ میرے پیچھے چل پڑی۔ میں نے کہا: تمہارا گھر اس سائیڈ تو نہیں ہے؟ تو کہنے لگی:
میں کچھ دور تمہارے ساتھ چلوں گی۔ جب کچھ لڑکیوں کا رش کم ہو جائے گا تو میں اپنے فرینڈ
کی گاڑی میں بیٹھ جاؤں گی، جو کچھ فاصلے پر کھڑی ہے۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلیک
کلر کی گاڑی دکھائی۔
میں خاموشی سے چل پڑی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد جب کافی رش
کم ہو گیا تو ماریہ نے فون پر اپنے فرینڈ کو کہا: گاڑی لے آؤ۔ گاڑی ہمارے نزدیک آ کر
رکی۔ ماریہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
ماریہ: آؤ، تم کو گھر چھوڑ دیتے ہیں۔
میں: نہیں، میں چلی جاؤں گی پیدل۔
ماریہ: اچھا، چلو جیسے تمہاری مرضی۔
ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور گاڑی چل پڑی۔ اور میں سوچوں
میں گم گھر کی طرف چل پڑی۔
گھر پہنچی تو پتا لگا کہ گاؤں سے میرا کزن ارشد آیا ہوا
تھا۔ ارشد میرے چچا کا لڑکا تھا۔ وہ فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا۔ اس کو دیکھ کر میں بہت
خوش ہوئی، کیونکہ میری اس کے ساتھ بہت جمتی تھی۔ میں نے اس کو سلام کیا۔
ارشد: لگتا ہے آج کل بہت زوروں سے پڑھائی جاری ہے۔
میں: جی، ارشد بھائی، پیپرز جو سر پر آ گئے ہیں۔
ارشد: اچھا جی، اس کا مطلب ہے لڈو اب ہم پیپرز کے بعد کھیل
سکیں گے۔
اصل میں ہم دونوں کی شرطیں لگا کرتی تھیں لڈو میں۔ کئی بار
ہم لڑ پڑتے تھے۔
میں: نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ ہم لڈو آج ہی کھیلیں گے۔
ارشد: اس کا مطلب ہے تم نے تیاری خوب کر لی ہے۔
ہم دونوں کی نوک جھونک دیکھ کر امی ہنس پڑی۔ امی نے کہا:
ارشد، بیٹے کو کھانا تو کھانے دو نہ، حال نہ حوال، بس آتے ہی لڈو کی پڑ گئی۔
ہم دونوں ہنس پڑے۔ میں نے کمرے میں آ کر یونیفارم تبدیل
کیا اور اپنا موبائل اٹھا لیا۔ ابھی موبائل میں میسجز پڑھ ہی رہی تھی کہ ماریہ کی امی
کی کال آ گئی۔ میں نے ان کو جھوٹ بول دیا کہ ماریہ میرے ساتھ ہے، ہم پیپرز کی تیاری
کر رہی ہیں۔ جیسے ہی ان کا فون بند ہوا، میں نے ماریہ کو میسج کر دیا کہ تم جتنا جلدی
ہو سکے گھر پہنچ جاؤ۔
مجھے پریشانی رہی کہ دوبارہ ماریہ کی امی کا فون نہ آ جائے،
پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ صبح اٹھ کر تیار ہو کر اسکول کے لیے روانہ ہو گئی۔ اسکول پہنچ
کر میری نظریں ماریہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ کلاس میں جیسے داخل ہوئی، ماریہ کو سامنے دیکھ
کر سکون کا سانس لیا۔
آدھی چھٹی جیسے ہوئی، ہم دونوں اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف
چل دیے۔ لان میں بیٹھ کر میرا پہلا سوال یہ تھا:
میں: تمہاری امی کو شک تو نہیں پڑا؟
ماریہ: نہیں، ان کو ذرا بھی شک نہیں پڑا۔ اس کو چھوڑو، تم
بتاؤ اپنی اسٹوری، کس نے تم کو کلی سے پھول بنا دیا؟
میں: چھوڑو، ایسی کوئی بات نہیں۔ دل میں خود کو کوسنے لگ
پڑی کہ کل خامخواہ منہ سے بات نکل گئی، اب ماریہ کی بچی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
ماریہ: اگر مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو مت بتاؤ۔
اس نے زیادہ زور لگایا تو میں نے سب کچھ بتا دیا۔ ماریہ
مزے لے کر سب کچھ سن رہی تھی اور کرید کرید کر پوچھ رہی تھی۔ میں نے سب کچھ بتانے کے
بعد اس سے وعدہ لیا کہ کسی کو مت بتانا۔
ماریہ: پاگل ہوں کیا؟ اپنی سب سے پیاری سہیلی کا راز کسی
کو بتاؤں گی؟
اس کے بعد میں نے اس سے اس کے کل والے واقعے کے بارے میں
پوچھا۔ ماریہ نے اپنی سیکس کی اسٹوری مزے لے لے کر سنانا شروع کر دی تھی۔ اس آدھے گھنٹے
میں اس نے مجھے سیکس کی اتنی نالج دی۔ ٹپس دیں، نیٹ سے سیکسی تصاویر دکھائیں۔ نیٹ میرے
موبائل میں بھی تھا، میں نے آج تک ایسی کوئی تصاویر نہیں دیکھی تھیں۔ کچھ ایسی تصاویر
تھیں جن میں لڑکی نے مرد کا لنڈ منہ میں لیا ہوا تھا۔
میں: کتنی گندی لڑکی ہے، مرد کا لنڈ منہ میں لیا ہوا ہے۔
ماریہ: پاگل، اس کو اورل سیکس کہتے ہیں۔ یہ سیکس کی جان
ہے، اس کے بغیر سیکس ادھورا ہے۔ رکو، ایک اور تصویر دکھاتی ہوں۔
ماریہ نے موبائل میں کچھ اور ٹائپ کیا اور ایک تصویر دکھائی،
جس میں مرد عورت کی پھدی کو چاٹ رہا تھا۔ دوسری تصویر میں دو لڑکیاں ایک دوسرے کی پھدیاں
چاٹ رہی تھیں۔
میں: ایسا صرف انگریز کرتے ہوں گے۔
ماریہ: نہیں پاگل، سب کرتے ہیں۔ میں خود اپنے تمام بوائے
فرینڈز کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں۔
میں: تم کرتی ہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ سب کرتے ہوں
گے؟
ماریہ: یار، سب کرتے ہیں۔ اس کے بغیر سیکس کا کوئی مزہ نہیں
ہے۔ میرے ابو امی بھی اورل سیکس کرتے ہیں۔
میرا منہ کھلا رہ گیا۔ میں: تم نے ان کو کہاں دیکھا؟
ماریہ: میں نے چوری چھپے ان کا سیکس کافی بار دیکھا ہے۔
میں حیران رہ گئی اس کی باتیں سن کر کہ کیسی اولاد ہے جو
اپنے ماں باپ کو سیکس کرتے چوری چھپے دیکھتی ہے۔ ماریہ کا باپ ایک مولوی تھا، اس کو
دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ ایسا کرتا ہوگا۔
ماریہ: تم سوچ رہی ہو گی کہ میرا باپ مولوی ہے، وہ ایسا
کام کیسے کر سکتا ہے؟
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ماریہ: میرے باپ نے ہمارے گھر کام کرنے والی آتی ہے، اس
کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ میں نے ان دونوں کو کافی بار پکڑا ہے۔
میں: تو تم اپنی ماں کو کیوں نہیں بتاتی اس کے بارے میں؟
ماریہ: جان، یہ سیکس کی بھوک ہے جو ہر انسان میں ہوتی ہے۔
اس کو حق ہے کہ وہ اپنی بھوک مٹائے، جیسے انسان کو کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے
ہی سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں بیل بج گئی۔ میں
نے ماریہ کو کہا: باتوں میں ہم نے کچھ کھایا بھی نہیں۔ ہم کلاس میں چلے گئے۔
چھٹی کے بعد میں گھر پہنچی تو امی کو پریشانی میں گھر سے
نکلتے دیکھا۔ مجھے دیکھ کر بولیں: شکر ہے تم آ گئیں۔ زبیدہ کے بیٹے کو چوٹ لگ گئی ہے،
میں اس کے ساتھ ہسپتال جا رہی ہوں۔ تم گھر کا خیال رکھنا۔ ارشد آئے تو اس کو کھانا
بنا کر دے دینا۔
زبیدہ ہمارے محلے میں رہتی تھی۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا،
جو بہت شرارتی تھا۔ ابھی اسکول جانا شروع کیا تھا، پانچ سال کا تھا، پر شرارتوں میں
پورے محلے میں مشہور تھا۔
امی کے جانے کے بعد میں نے یونیفارم بدلا اور لیٹ کر ماریہ
کی باتوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اپنا موبائل اٹھا کر اس میں گندی تصاویر اور
ویڈیوز سرچ کرنا شروع کر دیں۔ ویڈیوز دیکھ کر میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگ پڑا۔ کچھ
دیر ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں نے اپنی چوت پر ہاتھ لگایا تو کچھ گیلی پن محسوس کیا۔
ماریہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب عورت کو مزہ آنے لگتا ہے تو چوت میں گیلی پن بڑھ جاتا
ہے۔
کچھ ویڈیوز میں لڑکی گھوڑے یا کتے کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔
ماریہ کی بات ذہن میں آ گئی کہ سیکس کی بھوک انسان یا جانور نہیں دیکھتی۔ ایک ویڈیو
میں لڑکی اپنی چوت کو مسل رہی تہی اور انگلی ڈال رہی تھی۔ میں نے بھی ایسا کرنا شروع
کر دیا۔ ایک عجیب سی لذت میرے پورے جسم میں دوڑنے لگ پڑی۔
میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں
کو دبانے لگی، دوسرے ہاتھ سے اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی۔ ابھی ایک دو منٹ گزرے تھے کہ
دروازہ کھڑکھڑایا۔ میں گھبرا کر جلدی سے اٹھ پڑی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری چوری پکڑی
گئی ہو۔ میں نے اپنے کپڑے ٹھیک کیے اور دروازے کی طرف چل دی۔
دروازہ کھولا تو سامنے ارشد کھڑا تھا۔ میں سائیڈ پر ہو گئی۔
ارشد اندر آ گیا۔ ارشد اور میں بہت بار اکیلے گھر پر رہ چکے تھے، اس لیے میں نے اس
کو اندر آنے دیا۔ ارشد نے امی کا پوچھا۔ میں نے بتایا کہ امی ہسپتال گئی ہیں۔
ارشد نے کہا: یار، بہت بھوک لگی ہے۔ کیا پکایا ہے؟
میں نے کہا: پکایا تو کچھ نہیں ہے۔ چپس بنا لیتے ہیں، تم
آلو چھیل دو۔
ارشد: ٹھیک ہے، تم آلو مجھے کمرے میں لا دو۔
میں نے کچن سے آلو لیے اور دھونے کے بعد کمرے میں گئی تو
ارشد بیڈ پر لیٹا تھا۔ مجھے اچانک اپنے موبائل کا خیال آیا۔ اس میں گندی ویڈیوز والا
پیج کھلا ہوا تھا اور میرے موبائل کو پاس ورڈ بھی نہیں لگا ہوا تھا۔ میں نے آج تک اپنے
موبائل کو پاس ورڈ نہیں لگایا تھا۔ موبائل میں بیڈ پر رکھ کر گئی تھی، پر وہ ٹیبل پر
پڑا ہوا تھا۔
میں نے جلدی سے موبائل اٹھا لیا۔ شاید ارشد نے بیڈ سے موبائل
اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا تاکہ وہ بیڈ پر لیٹ سکے۔ میں نے آلو اس کو دیے۔ وہ آلو
کاٹنے لگ پڑا۔ میں ابھی موبائل کھول کر پیج کو بند ہی کیا تھا کہ ارشد اچانک تیز سسکاری
مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔ آلو کاٹتے ہوئے چھری اس کی انگلی پر لگ گئی تھی۔
میں نے بے اختیار اس کی انگلی کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع
کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد میری نظر اس کے ٹراؤزر پر پڑی۔ وہاں ابھار محسوس ہوا۔ میں سمجھ
گئی کہ میرے انگلی چوسنے کی وجہ سے اس کا لنڈ کھڑا ہو گیا ہے۔ میں نے منہ سے انگلی
نکالی تو خون رک چکا تھا۔ میں نے بینڈیج لا کر اس کی انگلی پر لگا دی۔
میں نے کہا: پیچھے ہٹو، تم کیا آلو کاٹو گے؟ خود زخمی ہو
گئے ہو۔
میں جھک کر آلو اٹھانے لگی تو مجھے پیچھے سے ارشد نے پکڑ
لیا۔ میرے ہاتھ سے آلو والی ٹوکری گر گئی۔ میں نے کہا: ارشد بھائی، چھوڑو مجھے۔
ارشد نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں جانے لگی تو اس نے میرا ہاتھ
پکڑ لیا اور کہا: موبائل میں تو بہت کچھ دیکھ رہی تھی، اب کیا ہو گیا؟
میں سمجھ گئی کہ اس نے میرا موبائل چیک کیا ہے۔ ابھی میں
کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ اس نے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ
رکھ دیے اور میرے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے۔ اس کے ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہے
تھے۔ میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی، شاید میں نے اپنے جسم کی بھوک مٹانے کا سوچ لیا تھا۔
میں نے بھی کسنگ میں اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ میں نے
اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی، جس کو اس نے چوسنا شروع کر دیا۔ اب اس کا ہاتھ میری
قمیض کے اندر تھا، میری نپلز کو مسل رہا تھا۔ تین چار منٹ کسنگ کرنے کے بعد اس نے مجھے
بیڈ پر لٹا دیا اور میری قمیض اوپر کر کے میرے مموں کو باہر نکالا۔ میرے گلابی ممے
دیکھ کر ارشد پاگل سا ہو گیا۔ وہ بے تحاشا میرے ممے چوسنے لگا۔
چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی
سے گیلی ہو رہی تھی۔ اس نے ممے چوستے ہوئے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس کے ہاتھ
نے جیسے ہی میری چوت کو چھوا، مجھے کرنٹ سا لگا۔ اس نے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع
کر دیا اور اپنی انگلی اندر باہر کرنے لگ پڑا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور میرے
سامنے کھڑا ہو کر اپنا ٹراؤزر نیچے کیا اور اپنا چھ انچ لمبا لنڈ باہر نکال لیا۔ مجھے
کہا: اس کو چوسو۔
میں نے کہا: مجھے نہیں آتا۔
ارشد: جیسے تھوڑی دیر پہلے میری انگلی چوس رہی تھی۔
میں نے اس کے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اپنی زبان نکال
کر اس کی ٹوپی پر رکھ دی۔ اس کی ٹوپی پر ایک لیس دار سا پانی لگا ہوا تھا، جس کو میں
نے زبان سے چکھا تو نمکین سا لگا۔ میں نے آہستہ آہستہ اس کی ٹوپی کو منہ میں ڈال لیا۔
اس کو قلفی کی طرح چوسنے لگ پڑی۔ میرے چوسنے سے اس کے منہ سے آہ آہ کی آوازیں آنا شروع
ہو گئیں۔ میں سمجھ گئی کہ اس کو مزہ آ رہا ہے۔ میں اس کے لنڈ کو اپنے منہ میں اندر
باہر کرنے لگی۔
کچھ دیر تک ایسے ہی کرتی رہی۔ ارشد نے میرے منہ سے لنڈ نکال
لیا اور مجھے دوبارہ لیٹنے کو کہا۔ میں لیٹ گئی تو اس نے میری شلوار اتار دی اور خود
میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ٹانگوں کو کھول کر اچانک اس نے اپنا منہ میری
چوت پر رکھ دیا۔ اس کے چوت چوسنے سے مزے کی لہر پورے جسم میں پھیل گئی۔ وہ بہت مزے
سے میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اس کی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی۔ میری چوت
سے جتنا رس نکل رہا تھا، اس کو وہ مزے سے پی رہا تھا۔
میں بہت گرم ہو چکی تھی، زور زور سے سسکاریاں لے رہی تھی۔
میرے منہ سے مستی بھری آہیں نکل رہی تھیں۔ ارشد کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی، اس
کے سر کو اپنی چوت پر زور سے دبا رہی تھی اور مزے کی شدت کی وجہ سے اپنے سر کو بیڈ
پر بار بار پٹخ رہی تھی۔
اب وہ کھڑا ہو گیا اور اپنا ٹراؤزر اتار دیا اور میری ٹانگوں
کو تھوڑا سا اوپر کر کے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت پر سیٹ کیا۔ وہ لنڈ کو چوت کے
سوراخ پر رگڑ رہا تھا۔ تبھی اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ نصف سے زیادہ لنڈ میری
چوت کی گہرائی میں اتار دیا۔ میری چیخ نکل گئی۔ وہ دو منٹ تک ویسے ہی پڑا رہا اور مجھے
چومتا رہا۔ پھر دھیرے دھیرے جھٹکے شروع کیے اور تیز ہوتے گئے۔
اب درد بھی کم ہو گیا تھا اور مزا بھی آنے لگا تھا۔ حیرت
انگیز طور پر جب پہلی بار سیکس کیا تھا تو کوئی مزہ نہیں آیا تھا۔ ارشد نے پوچھا: درد
ہو رہا ہے؟ تو لنڈ باہر نکالوں؟ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے جھٹکے مارنا
شروع ہو گیا۔ تین چار منٹ کے بعد اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور ایک زور دار
چنگھاڑ نکالی۔ اس کے لنڈ سے گرم گرم منی نکل کر میرے پیٹ پر گرنا شروع ہو گئی۔ اس کی
منی سے میرا سارا پیٹ اور ممے بھر گئے۔
فارغ ہوتے ساتھ ہی میرے ساتھ بیڈ پر گر گیا۔ اس نے مجھے
چومنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں کو سانس چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اٹھ کر اپنے دوپٹے سے اپنا
پیٹ صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ پڑی۔ اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ گرا لیا اور
کہنے لگا: ابھی دل نہیں بھرا ہے، ایک بار اور کرتے ہیں۔
میں نے کہا: امی آتی ہوں گی، کپڑے پہن لو۔ مجھے پتا تھا
کہ امی اتنی جلدی نہیں آنے والی، پر میں خود اب تھوڑا آرام کرنا چاہتی تھی۔ پر اس کی
ضد کے آگے میں ہار گئی۔ اس کے ساتھ میں لیٹ گئی۔ وہ اٹھا اور کچن سے دو گلاس گرم دودھ
کے لے آیا۔ دودھ پی کر کچھ جسم میں جان آ گئی۔ کچھ دیر ہم ننگے لیٹے باتیں کرتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے دوبارہ کسنگ کرنا شروع کر دی۔
اب کی بار میں کھل کر اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ میں اس کے ہونٹ اور زبان چوس رہی تھی،
ساتھ ساتھ میرا ہاتھ اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ کسنگ کرتے کرتے میں اس کی گردن اور
چھاتی پر اپنے ہونٹ چلانے لگ پڑی۔ میری کسنگ کرنے سے اس کا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو چکا
تھا۔
کسنگ کرتی ہوئی میں نے ایک ہاتھ سے اس کا لنڈ تھام لیا۔
اب اس کے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا۔ اس کے لنڈ پر ابھی تک میری چوت
کا رس اور اس کی اپنی منی لگی ہوئی تھی، جس کا ذائقہ میں اپنے منہ میں محسوس کر رہی
تھی۔ ایک اچھا ذائقہ لگ رہا تھا منی کا۔ میں نے انگریز لڑکیوں کو مرد کی منی کو نگلتے
ہوئے دیکھا تھا ویڈیوز میں۔ اس وقت اس کے لنڈ سے ہلکا ہلکا پانی نکل رہا تھا، جسے میں
چاٹ اور چوس کر صاف کرتی جا رہی تھی۔
اس کے مزیدار نمکین پانی کے موٹے موٹے قطروں کو میں نے پینا
شروع کر دیا۔ میرے لنڈ چوسنے سے دوسری طرف ارشد سسکیاں بھرتا جا رہا تھا۔ اچانک باہر
کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی قمیض ٹھیک کی اور جلدی سے شلوار پہن
کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کیے اور جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔
ارشد نے اٹھ کر اپنے کپڑے پہننا شروع کر دیے تھے۔ میں نے
دروازہ کھولا تو کوئی مانگنے والا تھا۔ میں نے دل میں اس کو کوسا کہ بابا، معاف کرو
اور دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔
میں کمرے میں داخل ہوئی تو ارشد نے پوچھا: کون تھا؟
میں نے بتایا کہ کوئی فقیر تھا۔ اس نے کہا: آؤ بیڈ پر دوبارہ
کام شروع کرتے ہیں۔
میں: نہیں، امی آتی ہوں گی، کافی دیر ہو چکی ہے۔
ارشد: اس کا کیا کروں؟ اس نے اپنے کھڑے لنڈ کی طرف اشارہ
کیا۔
میں: مجھے کیا پتا؟
ارشد: اچھا، تم اس کا رس اپنے منہ سے ہی نکال دو، اس کو
آرام آ جائے گا۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا ٹراؤزر تھوڑا نیچے کر کے اپنا لنڈ
باہر نکال دیا۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے لنڈ کو منہ میں لے لیا اور چوسنے
لگ پڑی۔ اس کے لنڈ کو منہ میں آگے پیچھے کرنے لگ پڑی اور میرے لنڈ چوسنے سے ارشد مزے
کی وادیوں میں کھوتا جا رہا تھا۔
اب اس نے میرے بال پکڑ کر میرے منہ کو چودنا شروع کر دیا
تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے جھٹکے بڑھنے جا رہے تھے۔ اس نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور
اپنی منی کو میرے منہ میں ہی نکال دیا۔ میں نے اس کے لنڈ کو منہ سے نکالنے کی کوشش
کی، پر اس نے میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبائے رکھا، جس کی وجہ سے اس کی منی میرے حلق
کے اندر تک گئی۔ مجھے ابکائی آنے لگی تو اس نے میرا منہ چھوڑ دیا۔
ابھی میں اس کی منی منہ سے تھوکنے ہی لگی تھی کہ باہر دروازہ
زور زور سے کھٹکھٹایا۔ میں نے جلدی سے اس کی گرم گرم منی کو نگل لیا اور اس کو دروازہ
کھولنے کا اشارہ دیا۔ وہ دروازہ کھولنے چلا گیا۔ میں نے جلدی سے منہ صاف کیا دوپٹے
سے اور کمرے میں ایک جلدی سے نظر ماری کہ کوئی نشان رہ تو نہیں گیا ہے۔
جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ملا تو میں نے ایئر فریشنر نکال کر
کمرے میں چھڑک دیا تاکہ امی منی کی بدبو نہ سونگھ لیں۔ اور خود کمرے سے باہر نکل آئی۔
دروازے پر امی ہی تھیں۔ امی اندر آ کر چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ میں نے ان سے آنٹی زبیدہ
کے بچے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سر پر تین ٹانکے لگے ہیں۔
پھر امی نے مجھ سے پوچھا: ارشد کو کچھ کھلایا ہے؟
ارشد نے شرارتی لہجے میں کہا: آنٹی، اس نے مجھے آم کھلا
دیے تھے۔
امی نے کہا: چلو، اچھا ہے۔
میں جا کر کمرے میں چلی گئی اور لیٹ گئی۔ صبح اٹھ کر اسکول
چلی گئی۔ اسکول میں جیسے آدھی چھٹی ہوئی، ماریہ مجھے لے کر لان میں جا کر بیٹھ گئی۔
ماریہ: آج بہت کھلی کھلی لگ رہی ہو، خیر ہے۔
میں نے مسکرا کر اس کو کل والی بات بتا دی۔ ماریہ نے خوشی
سے مجھے چوم لیا اور کہا: واہ، کیا بات ہے۔ پھر اس نے مزے لے لے کر مجھ سے سوالات پوچھنے
شروع کر دیے۔
میں نے کہا: یار، وہ میرے بھائیوں جیسا تھا۔
ماریہ: ارے، سیکس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ میرا بس چلے
تو میں اپنے سگے باپ اور بھائی کو نہ چھوڑوں، تم کزن کی بات کرتی ہو۔
میں اس کی بات سن کر حیران ہو گئی۔ دل میں اس پر لعنت بھیجی
کہ کیسی بے شرم لڑکی ہے جو اپنے سگے باپ اور بھائی کے لیے ایسی سوچ رکھتی ہے۔ اس کے
بعد اس نے مجھے موبائل پر کلپ دکھانا شروع کر دیے۔
چھٹی کے بعد گھر پہنچی تو پتا لگا کہ ارشد واپس گھر چلا
گیا ہے۔ اس کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ مجھے یہ جان کر تھوڑی مایوسی ہوئی۔
میرا دل ابھی اور کر رہا تھا سیکس کی بھوک مٹانے کا۔
میں نے کمرے میں جا کر موبائل اٹھا لیا۔ سب سے پہلا کام
یہ کیا کہ اس پر کوڈ لگایا، کیونکہ ماریہ نے کہا تھا کہ میں تم کو ڈیلی سیکسی ویڈیوز
بھیجا کروں گی۔ میرا موبائل گھر پر ہوتا تھا، اس لیے میں نے اس کو کوڈ لگا دیا تھا۔
ماریہ نے وعدے کے مطابق مجھ کو ویڈیوز بھیج دیں، جن کو دیکھ
کر چوت میں آگ سی بھڑک اٹھی۔ میں نے شلوار میں ہاتھ ڈال کر چوت کو مسلنا شروع کر دیا۔
انگلی اندر ڈال کر چوت میں گھمانے لگی۔ چوت کی آگ تھی کہ بجائے بجھنے کے بھڑکتی جا
رہی تھی۔ ہاتھ تھک گیا۔
میں نے ایک ویڈیو دیکھی تھی، جس میں لڑکی کھیرا کو چوت میں
ڈال کر اندر باہر کر رہی تھی۔ میں نے فریج میں جا کر دیکھا، کھیرا تو نہیں ملا، گاجر
پڑی تھی۔ میں نے اس کو ہی غنیمت جانا اور کمرے میں آ گئی۔ گاجر کو چوت میں ڈال کر اندر
باہر کرنے لگ پڑی۔
کافی دیر بعد اچانک ایسا محسوس ہوا کہ میرا سارے جسم کا
خون سمٹ کر میری چوت کی طرف منتقل ہو گیا ہو۔ خود بخود میرے ہاتھ کی حرکت میں تیزی
آ گئی۔ پورے جسم میں اکڑاہٹ شروع ہو گئی اور یک دم چوت سے پانی کا فوارہ نکلا، ساتھ
ہی پورے جسم میں مزے کی لہر سی دوڑ گئی۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا میرے لیے۔
میں نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو ہاتھ پورا میری چوت سے
نکلے ہوئے رس سے بھرا پڑا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ چاٹ لیا۔ اس کے بعد گاجر، جس پر میری
چوت کا رس لگا ہوا تھا، اس کو کھا لیا۔ گاجر بہت مزے کی تھی، نمکین رس اس پر لگا ہوا
تھا۔ اس کے بعد میں نے شلوار اوپر کی اور لیٹ گئی۔ پورے جسم میں سکون آ گیا تھا۔
یہ میرا معمول بن گیا تھا۔ اسکول میں ہم دونوں ایک دوسرے
سے سیکس کے ٹاپک پر بات چیت کرتے تھے۔ گھر آ کر میں اپنی چوت سے کھیلا کرتی ت