کشمیری آنٹی

489 views

دوستو، سب کیسے ہیں؟ میرا نام ملک ہے، اور اس وقت میری
عمر پچیس سال تھی۔ جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ بالکل سچ ہے۔ یہ ایک
ایک بات میرے ساتھ پیش آئی، اور یہ کہانی مکمل طور پر حقیقی ہے۔ کیونکہ میں خود
سچائی لکھ رہا تھا، اس لیے اسے لکھنے میں مجھے کم از کم دو ماہ لگ گئے۔

خیر، یہ اس وقت کی بات ہے جب میں کشمیر کے علاقے
راولاکوٹ میں اپنے سالے کی شادی میں شرکت کے لیے گیا ہوا تھا۔ ہر کوئی کشمیر کی
خوبصورتی سے واقف ہے۔ یہ ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے، جہاں گھر ایک دوسرے سے کافی
فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک گھر سے دوسرے گھر جانا کسی غیر مقامی شخص کے لیے
مشکل ہوتا ہے، کیونکہ راستے دشوار ہوتے ہیں۔ ایک جگہ پر بس ایک ہی گھر ہوتا ہے،
یعنی آپ کا گھر دوسرے گھر سے کم از کم ایک کلومیٹر دور ہوتا ہے۔ میں نے وہاں اس سے
قریب کوئی گھر نہیں دیکھا۔

16 دسمبر 2023 کا دن تھا۔ سردی کا موسم تھا، گہرے بادل
چھائے ہوئے تھے، اور صبح سات بجے کا وقت تھا۔ میں شادی والے گھر سے نکلا کہ کہیں
گھوم پھر لوں۔ شادی کا ماحول تھا، سب مصروف تھے، اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ
کسی سے کہوں کہ میرے ساتھ چلے۔ میں نے اپنے کزن سے کہا کہ میں ذرا سیر و تفریح کر
آؤں۔ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے، جاؤ۔ یہاں سب ہمیں جانتے ہیں۔ اگر تمہیں لگے کہ راستہ
بھٹک گئے ہو یا سمجھ نہیں آ رہی، تو کسی بھی گھر چلے جانا۔ وہ تمہیں یہاں تک چھوڑ
دیں گے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، اور پہاڑوں میں گھومنے نکل گیا۔

خیر، میں نے کافی نظاروں سے لطف اندوز ہوا اور کافی دور
نکل گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ واپس جانا چاہیے، کیونکہ رات کو بارات میں بھی شرکت
کرنی تھی۔ لیکن میں راستہ بھٹک گیا اور ایک مکان کی طرف تیز قدموں سے بڑھتا چلا
گیا۔ وہ گھر بند اور ویران سا لگا۔ میں سیڑھیوں سے اوپر چڑھا کہ شاید کوئی موجود
ہو۔ جیسے ہی میں اوپر پہنچا، دیکھا کہ تین کمرے ایک لائن میں بنے ہوئے تھے، جن کے
تین دروازے تھے۔ وہاں مجھے ایک کشمیری آنٹی پہلے دروازے پر ملیں، جنہوں نے بڑے
پیار سے مجھے سلام کیا اور میری بیوی کا نام لے کر کہا کہ تم اس کے شوہر ہو۔ میں
نے کہا، جی، میں ان کا شوہر ہوں۔ انہوں نے اپنی رشتہ داری بتائی۔ میں نے شکر کیا
کہ اب میں واپس پہنچ جاؤں گا۔

میں نے ان سے پوچھا، آگے راستہ ہے یا پہاڑ؟ اور آگے
جانے لگا تو آنٹی نے کہا، آگے راستہ بند ہے، اور جو تم راستہ سمجھ رہے ہو، وہ واش
روم ہے۔ میں نے آگے جا کر دیکھا تو واقعی وہ واش روم تھا، جس کا آدھا دروازہ اوپر
سے کٹا ہوا تھا، یعنی ہاف ڈور۔ میں نے آنٹی سے کہا، چلیں، میں جاتا ہوں۔ ذرا راستہ
گائیڈ کر دیں۔ وہ بولیں، ٹھیک ہے، لیکن تم کیسے پہنچو گے؟ تم شادی والے گھر سے
کافی دور آ چکے ہو۔ اگر میں تمہیں راستہ گائیڈ بھی کروں تو مجھے معلوم ہے کہ یہ
جنگل اور پہاڑ ہیں، تم بھٹک جاؤ گے۔ میں نے کہا، کسی کو میرے ساتھ بھیج دیں جو
مجھے وہاں تک پہنچا دے، کیونکہ شام کو شادی میں شرکت کرنی ہے۔ ابھی آٹھ بج چکے
ہیں، اور پہنچتے پہنچتے وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا، تم میرے ہاں ہی رکو۔ میں بھی چار بجے
شادی اٹینڈ کرنے کے لیے وہیں جا رہی ہوں۔ ہم اکٹھے جائیں گے، اور شارٹ کٹ سے پچیس
منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا، نہیں آنٹی جی، ٹائم زیادہ ہو جائے گا۔ اگر آپ
کے ہاں کوئی موجود ہے تو اس سے کہیں کہ مجھے چھوڑ آئے۔ آنٹی نے کہا، کوئی بھی نہیں
ہے۔ اور کیا حرج ہے؟ ہم اکٹھے چلے جائیں گے۔ تم اب میرے گھر قسمت سے مہمان بن کر آ
ہی گئے ہو، تو مجھے مہمان نوازی کا موقع دو۔ مجھے خوشی ہوگی۔ ویسے بھی میرے ہاں
کوئی قسمت سے پہلی بار آیا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے۔

میں نے یہ سن کر کہا، میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔ اور
قسمت سے پہلی بار میں ہی کیوں آیا آپ کے ہاں؟ آنٹی نے کہا، اندر بیٹھو، پانی پیو،
سب بتاتی ہوں۔ یہاں دن کا کھانا کھاؤ، میرے ہاتھوں کا دیسی گھی میں پکا ہوا کھانا
اور خالص دودھ کی چائے پیو، تاکہ تمہیں کشمیر میں گھومنے کا مزہ آئے۔ میں کافی خوش
ہوا، لیکن انہیں منع کیا۔ لیکن ان کے بار بار اصرار پر میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ وہ
مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں۔

میں ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ ایک کمرہ تھا، جس میں ایک
ڈبل بیڈ تھا، جس پر سپرنگ میٹریس تھا۔ نیچے نرم و گرم قالین بچھا تھا، اور نیچے
بیٹھنے کے لیے بہترین گدے اور گاؤ تکیے تھے۔ مطلب کہ آنٹی نے اپنا کمرہ بہت پیارا
سجایا ہوا تھا۔ کمرے کے ساتھ کچن تھا، اور کچن سے آگے ایک چھوٹا سا سٹور۔ سردی
کافی تھی، لیکن کمرے میں کوئلے کی انگیٹھی چل رہی تھی، جس سے کمرہ کافی گرم تھا۔
مجھے بہت سکون آیا، اور میں انگیٹھی کے پاس نیچے بیٹھ گیا۔ آنٹی بھی میرے پاس بیٹھ
گئیں۔ ہم نے علاقے کے بارے میں گپ شپ شروع کی۔ مجھے آنٹی سے کافی معلومات ملیں،
اور کافی باتیں ہوئیں۔

میں نے ان سے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھا تو آنٹی نے
ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اداس لہجے میں بتایا کہ ان کے شوہر نوکری کے سلسلے میں
انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں ہیں اور دو سال بعد آتے ہیں۔ جب آنٹی نے یہ بات بتائی
تو انہوں نے بہت اداسی ظاہر کی۔ اس پر میری چھٹی حس نے کام کیا کہ یہ جنگل میں سیر
و تفریح کے ساتھ شکار کا موقع ہے۔ خیر، میں آپ کو آنٹی کا حلیہ بتاتا ہوں۔ ان کی
عمر چالیس سال تھی، گورا چٹا دودھ سا رنگ، یعنی کسی انگلش پورن سٹار کی طرح سفید۔
وہ لمبے قد کی تھیں اور بھرے ہوئے جسم کی مالک تھیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،
کیونکہ ان کی بچہ دانی بند تھی، اور وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تھیں۔ ان کے سینے کا
سائز 38، کمر 30، اور گانڈ 40 کے تھے۔ چہرہ لمبا اور خوبصورت تھا، اور مزاج اتنا
نرم کہ اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔

ان کے محبت بھرے لہجے کی وجہ سے میں ان کی بات پر راضی
ہو گیا کہ اتنی محبت سے کہہ رہی ہیں تو رہ جاتا ہوں۔ ان کی بات ٹھکرانا غلط ہوگا۔
اس لیے میں وہاں رہ گیا۔ باہر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی۔ لوہے کی چھت پر
بارش کے قطروں کی آواز اچھی لگ رہی تھی۔ خیر، آنٹی اٹھیں اور بولیں، میں اس بارش
میں آپ کا مزہ دوبالا کرتی ہوں۔ مجھے جھٹکا لگا کہ کہیں آنٹی براہ راست تو نہیں
پیشکش کر رہی ہیں۔ میں نے حیرت سے کہا، کیا؟ وہ ہنسیں اور بولیں، میں آپ کو دودھ
پتی پلاتی ہوں۔ میں مسکرایا اور کہا، جی کیوں نہیں؟ کشمیر کی بارش اور خاموشی میں
تو مزہ ہی الگ ہے۔ آنٹی نے کہا، انجوائے کریں، میں ابھی چائے لاتی ہوں۔ انہوں نے
پانچ منٹ میں خالص دودھ پتی بنائی اور مجھے پیش کی۔ جھکتے وقت ان کے سینوں کا گہرا
نظارہ بہت خوبصورت تھا۔ میری نظر ان کے سینوں پر گئی۔ آنٹی نے جھکتے ہوئے اپنا
نیچے والا ہونٹ دانتوں میں دبا کر مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا۔ میری نظر ان کے سینوں
پر جمی تھی۔

آنٹی نے کہا، چائے لے لیں پلیز۔ میں نے کہا، جی جی
پلیز۔ آنٹی نے جان بوجھ کر دوپٹہ نیچے سرکایا تھا تاکہ چائے دیتے وقت میں ان کے
سینوں کا نظارہ کر سکوں، جو میں نے ان کے کچن سے نکلتے وقت ہی نوٹ کر لیا تھا۔ میں
نے چائے لی اور شکریہ کہا۔ آنٹی نے کہا، آرام سے بیٹھو، اپنا گھر ہے، ریلیکس ہو
جاؤ۔ میں نے کہا، جی، میں ٹھیک ہوں۔ آنٹی بولیں، جیکٹ اتار لو، مجھے لگتا ہے تم
تنگ ہو رہے ہو۔ میں نے کہا، جی، میں اتار لیتا ہوں۔ بیٹھے بیٹھے جیکٹ اتارنے لگا
تو آنٹی جھٹ سے اٹھیں اور میرے پیچھے آ کر میری جیکٹ اتارنے لگیں۔ میں نے کہا، شکریہ،
آپ بہت تکلف کر رہی ہیں۔ آنٹی نے کہا، تکلف کیسا؟ آپ میرے مہمان ہیں، اور یہ میرا
فرض ہے کہ آپ کی ہر طرح سے خدمت کروں، کوئی کسر نہ رہے۔

یہ سن کر میں مسکرایا اور دل میں سوچا، یہ آنٹی مجھے آج
اس جنگل بیابان میں نچوڑے گی۔ خیر، میں نے قمیض شلوار پہن رکھی تھی، اور نیچے کچھ
نہیں تھا۔ کمرہ گرم تھا، اور باہر کی سخت سردی کا اندر کوئی تصور نہیں تھا۔ آنٹی
نے میری بیوی کے خاندان والوں کی تعریفیں کیں اور رشتہ داری کے بارے میں بتایا۔
میں نے ان سے پوچھا، آپ نے باہر کہا تھا کہ قسمت سے پہلی بار کوئی مہمان آیا ہے،
تو میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔ آنٹی مسکرائیں اور اچانک اداس ہو کر آہ بھری اور
بولیں، میں نے آپ کو بتایا کہ میرے شوہر باہر ملک ہیں، اس لیے میرے ہاں کوئی نہیں
آتا۔ باقی آپ سمجھدار ہیں، سمجھ سکتے ہیں۔

میں نے کہا، بالکل، آپ اکیلی عورت ہیں۔ کسی مرد کا یہاں
آنا جانا کسی کو بھی شک میں مبتلا کر سکتا ہے۔ آنٹی نے جواب دیا، بالکل درست کہہ
رہے ہو۔ میں نے کہا، آنٹی، کہیں کسی نے مجھے آپ کے ہاں آتے دیکھ نہ لیا ہو۔ آنٹی
نے کہا، جب تم نیچے سے اوپر میری طرف آ رہے تھے، میں نے جائزہ لے لیا تھا، کسی نے
نہیں دیکھا۔ ویسے بھی یہاں گھر بہت دور دور ہیں۔ اور اگر کسی نے دیکھا بھی تو کوئی
مجھ پر اعتراض نہیں کر سکتا، کیونکہ تم میرے رشتہ دار ہو۔ کسی کو تکلیف نہیں ہونی
چاہیے۔

میں نے کہا، آنٹی جان، بات یہ ہے کہ اگر کوئی یہاں آ
جاتا ہے اور میری موجودگی دیکھ لیتا ہے تو وہ ہمارے بارے میں غلط نہ سوچے۔ آنٹی نے
کہا، میں نے تم سے کہا نہ کہ کوئی نہیں آتا۔ تم سات ماہ بعد میرے گھر آنے والے
پہلے شخص ہو۔ اب اندازہ لگاؤ کہ یہاں کون آئے گا۔ میں نے سر ہلا کر کہا، سہی ہے،
لیکن پھر بھی برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ آنٹی نے میرے ہونٹوں پر انگلی رکھی
اور بولیں، کیسی باتیں کر رہے ہو؟ تم میرے رشتہ دار ہو۔ کسی کو کیا تکلیف؟ پہلی
بات تو یہ ہے کہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں۔ اگر کوئی آ بھی جائے تو وہ میرا مسئلہ ہے۔
میں جانتی ہوں کہ کیا جواب دینا ہے۔

میں نے چائے کا گھونٹ لیا اور کہا، ہینڈل کرنے کا مطلب
مجھے چھپا دیں گی؟ اس پر میں اور آنٹی زور سے ہنسے۔ پھر میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ خیر،
میں آنٹی کی پوری نیت بھانپ چکا تھا۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ یہاں کوئی آنے
والا نہیں۔ باتوں باتوں میں آنٹی نے نوٹ کیا کہ میں ان کے سینوں اور کولہوں کو
گھور رہا ہوں، اور اس سے میں گرم ہو رہا ہوں۔ اس کے نتیجے میں میرا سات انچ لمبا
اور ڈھائی انچ موٹا لن شلوار میں کھڑا ہو گیا تھا۔ میں بار بار قمیض کے نیچے ہاتھ
ڈال کر شلوار کے اوپر سے لن اور ٹٹوں کو سہلا رہا تھا۔ آنٹی بھی کافی دیر سے مجھے
نوٹ کر رہی تھیں۔

آنٹی نے خاموشی توڑی اور کہا، لگتا ہے تمہیں لیٹرین کی
حاجت ہے۔ میں نے کہا، جی، ٹھنڈ کی وجہ سے پیشاب آیا ہے۔ آنٹی نے کہا، تمہیں لیٹرین
جانا چاہیے۔ میں نے کہا، جی، لیٹرین آخر میں ہے نہ؟ انہوں نے کہا، جی بالکل، لیکن
رکو، میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔ میں نے کہا، نہیں نہیں آنٹی، اس کی کیا ضرورت؟ میں
نے لیٹرین دیکھ لی تھی جب یہاں آیا تھا۔ آنٹی نے کہا، لیٹرین کا دروازہ لاک بھی
نہیں ہوتا، اور آدھا اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے۔ اس لیے میں چادر لاتی ہوں، تمہارے لیے
پردہ کر لوں گی تاکہ تم آرام سے پیشاب کر سکو۔

میں نے کہا، آنٹی جان، اب میں آپ کو منع کروں گا تو آپ
مانیں گی نہیں۔ اس لیے چلیں، جیسے آپ چاہیں۔ ویسے مجھے پیشاب کرنے میں دیر لگے گی،
آپ کتنی دیر کھڑی رہیں گی؟ رہنے دیں، میں ہو کر آ جاتا ہوں۔ آنٹی نے کہا، کوئی بات
نہیں، میں کھڑی ہو جاؤں گی۔ پردہ تو ضروری ہے۔ تم میرے مہمان ہو۔ میں نے کہا، آنٹی،
میں آپ کے سامنے شلوار کیسے اتاروں؟ آنٹی نے مسکرا کر کہا، جیسے اپنی بیوی کے
سامنے اتارتے ہو۔ میں حیران ہو گیا اور سمجھ گیا کہ آنٹی مجھے شکار کر رہی ہیں۔
میں نے کہا، چلیں تو چادر لے آئیں۔

وہ کچن سے سٹور کی طرف چادر لینے گئیں۔ اتنے میں میں نے
اپنی شلوار اتار کر کھڑا ہو گیا۔ جیسے ہی آنٹی چادر لے کر آئیں اور میری اتری ہوئی
شلوار دیکھیں تو بولیں، تم لیٹرین شلوار اتار کر جاتے ہو؟ میں قمیض کے نیچے لن
مسلتے ہوئے بولا، جی آنٹی، میں شلوار اتار کر ہی جاتا ہوں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ
آنٹی بھی گرم ہو گئی ہیں۔ آنٹی نے کہا، آ جاؤ۔ میں اور آنٹی لیٹرین کی طرف جانے
لگے۔ میں لیٹرین میں داخل ہوا اور فلش پر بیٹھنے سے پہلے قمیض اوپر کرنے لگا تو
آنٹی کی طرف دیکھا، جو میری شلوار کے اترنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھیں۔ میں
نے ان کی طرف چٹکی بجائی اور کہا، آنٹی جان، پردہ کر دیں۔ انہوں نے جھنجھلا کر
کہا، جی جی، سوری سوری۔ میں نے کہا، اٹس اوکے۔ آنٹی میری طرف منہ کر کے چادر پکڑ
کر کھڑی ہو گئیں۔

میں نے سوچا کہ اب ان سے کہوں کہ دوسری طرف منہ کرو تو
برا لگے گا۔ خیر، مجھے علم تھا کہ آنٹی میرا لن دیکھنا چاہتی ہیں۔ جیسے ہی میں نے
قمیض اٹھائی، آنٹی کی پہلی نظر میرے سات انچ کے نیم کھڑے لن اور آدھا کلو بھاری
چاکلیٹی ٹٹوں پر پڑی۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے چادر چھوڑ کر منہ پر ہاتھ رکھا اور
حیرت سے بولیں، اوہ مائی گاڈ، واہ! میں مسکرانے لگا اور کہا، کیا ہوا آنٹی جان؟
انہوں نے جلدی سے چادر درست کی اور کہا، سوری سوری، کچھ بھی نہیں، تم پیشاب کرو۔

میں فلش سے اترا اور کھڑے ہو کر ایک ہاتھ سے لن پکڑ کر
دھار مارنا شروع کی۔ آنٹی نے غور سے میرے لن کو دیکھنا شروع کیا۔ میں مسکرایا۔ وہ
مسلسل میرے لن کو دیکھتی رہیں۔ خیر، میرے لن سے پیشاب کے آخری قطرے نکل رہے تھے۔
میں نے پورا لن سیدھے ہاتھ میں پکڑا اور مٹھ مارنے کے انداز میں باقی قطرے نکالنے
شروع کیے۔ ساتھ ہی آخر میں میری کچی منی (مذی) دھاریں بنا کر نکلنے لگی۔ آنٹی نے
اچانک کہا، یہ کیسا پیشاب ہے؟ میں نے کہا، آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ انہوں نے
کہا، نہیں۔ میں نے کہا، چھوڑیں۔ لوٹا اٹھا کر لن کے ٹوپے پر پانی ڈالا اور قمیض
نیچے کرنے لگا تو آنٹی نے کہا، قمیض نیچے نہ کرو، پانی سے گیلی ہو جائے گی۔ سردی
ہے، ایسے ہی کمرے میں چلو اور انگیٹھی سے گرمی لو۔

میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ لیٹرین سے نکلا اور آنٹی کے آگے
آگے لن لہراتا ہوا کمرے میں داخل ہو گیا۔ آنٹی کمرے میں آئیں اور اندر سے دروازہ
لاک کر دیا۔ کچھ دیر مجھے اور میرے لن کو ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی رہیں۔ میں
انگیٹھی پر اپنا لن اور ٹٹے گرم کر رہا تھا۔ آنٹی چادر سٹور میں رکھ کر واپس آئیں۔
کچھ لمحوں بعد مجھے دیکھ کر بولیں، وہ پیشاب کے آخر میں کیسے لیس دار قطرے تھے؟
میں نے لن کو جڑ سے پکڑ کر آگے تک لے گیا۔ کچی منی کے دو قطرے میرے لن کے ٹوپے پر
چمکنے لگے۔ میں نے انہیں انگلی سے اٹھایا تو نیچے تار بن گئی۔ آنٹی نے حیرت سے
دیکھا، قریب آ کر مذی کی تار کو اپنی انگلی پر لگایا۔ میں مسکرایا اور کہا، اسے
چکھ کر دیکھیں۔ آنٹی نے کہا، کیا میں اسے چکھ بھی سکتی ہوں؟ میں نے کہا، کیوں
نہیں؟ یہ بہت لذیذ چیز ہے۔

اب مجھے سب معلوم تھا۔ میں اس کھیل کا چیمپئن ہوں۔ آنٹی
سب جانتی تھیں، لیکن بھولا پن ظاہر کر کے چاہتی تھیں کہ کھیل کا آغاز میں کروں۔
لیکن انہیں نہیں معلوم تھا کہ میں ایک پرانا اور منجھا ہوا کھلاڑی ہوں۔ خیر، آنٹی
نے میری انگلی پر لگی مذی کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد انگلی
نکال کر بولیں، واہ، بہت لذیذ! میں نے کہا، دیکھا نہ آنٹی جان، میں نے کہا تھا کہ
یہ بہت لذیذ چیز ہے۔ آنٹی نے کہا، واقعی، ایسا ٹیسٹ میں نے زندگی میں نہیں چکھا۔
مزہ آ گیا۔

میں مسکرایا۔ آنٹی نے کہا، موسم تو ٹھنڈا ہے، لیکن پتا
نہیں میں اندر سے گرم ہو گئی ہوں۔ جب سے تمہیں اس طرح ننگا دیکھا، اندر ہلچل مچ
گئی ہے۔ میں نے کہا، بالکل، ایسا ہوتا ہے آنٹی جان۔ آپ بھی شادی شدہ اور تجربہ کار
عورت ہیں۔ ایک صاف سی بات ہے کہ ایک نامحرم عورت اور مرد کے درمیان تیسرا بندہ
شیطان ہوتا ہے۔ اب لگام آپ کے ہاتھ میں ہے، جیسے آپ چاہیں، گھوڑا ویسے چلے گا۔

آنٹی مسکرائیں اور بولیں، مرضی تو اب تمہاری ہے۔ اتنا
شاندار مال تو میں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں صرف پورن ویڈیوز میں دیکھا تھا۔
آج قسمت کی دیوی مجھ پر کیسے مہربان ہوئی؟ مجھے اپنی قسمت پر رشک آ رہا ہے۔ میں نے
سوچا، آنٹی جان، آج تو قسمت کے ساتھ گانڈ بھی کھلیں گے تو بے انتہا رشک آئے گا۔
میں نے تڑکا لگانے کے لیے کہا، سچ میں، میں نے بھی آج تک آپ جیسی بے باک اور نڈر
خاتون نہیں دیکھی۔

اس پر آنٹی کو ہمت اور بے انتہا خوشی ملی۔ وہ آگے بڑھیں
اور مجھے پیچھے سے لپٹ گئیں۔ میں نے ان کے بازوؤں پر ہاتھ پھیرا۔ دو منٹ بعد آنٹی
پیچھے ہٹیں اور بولیں، اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں اپنے خوابوں کی چیز، جسے میں
برسوں سے حقیقت میں دیکھنا چاہتی تھی، اسے چھو سکتی ہوں؟ میں نے کہا، کیوں نہیں؟
آج اگر آپ کی قسمت مہربان ہو گئی ہے تو جیسے چاہیں اسے چھوئیں۔

آنٹی نے آگے بڑھ کر میرے لن کو اپنے ہاتھوں میں تھام
لیا اور پیار و شہوت بھری آنکھوں سے اسے دیکھنے لگیں۔ وہ ٹٹوں کو دونوں ہاتھوں میں
اٹھا کر بولیں، اففف، اتنے وزنی کیسے؟ تم یہ وزن کیسے برداشت کرتے ہو؟ میں نے کہا،
اس کا وزن اٹھانے والی صرف آپ ہی نہیں، بہت ساری دیوانیاں ہیں جو میرے ٹٹوں کا وزن
اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ آنٹی مسکرائیں۔ پھر میں نے ان کی قمیض اوپر
کی اور ان کے سینوں کو سہلانا شروع کیا۔ آنٹی کسمسانے لگیں۔

میں نے کہا، آنٹی جان، آج کل کی لڑکیوں کے تو چھوٹے
چھوٹے سینے ہوتے ہیں، جو ہاتھ میں لگتا ہی نہیں کہ کچھ ہے۔ آنٹی مسکرائیں۔ میں نے
ان کے دونوں سینوں کو زور سے دباتے ہوئے کہا، اسے کہتے ہیں سینے۔ آنٹی نے شہوت
انگیز سسکی لی اور زور سے آہ بھری۔ قمیض کے نیچے 38 سائز کے بڑے گول سینے برا میں
پھنسے ہوئے تھے۔ میں نے قمیض اوپر کی اور دیکھا کہ لال برا میں ان کے سینے پھنسے
ہوئے ہیں۔ میں نے پیار سے مسل کر برا اوپر کیا اور ان کے سینوں کو باہر نکالا۔ میں
نے کہا، واہ آنٹی، آپ کے سینے تو دھماکہ ہیں۔ اور ساتھ ہی چوسنا شروع کر دیا۔

آنٹی کافی گرم تھیں۔ وہ زور زور سے سسکنے لگیں۔ میں ان
کے دونوں سینوں کو منہ میں لے کر زور زور سے چوسنے لگا۔ ایسا لگا جیسے آج تک ان
سینوں کی چسائی کسی نے اچھے سے نہیں کی۔ آنٹی کے گورے سفید سینوں پر گہرے کافی رنگ
کے نپلز تھے۔ اففف، کیا بتاؤں! کبھی چوستا، کبھی چاٹتا، کبھی ان کے بڑے موٹے نپلز
کو کاٹتا۔ آنٹی زور زور سے سسکنے لگیں اور بولیں، اوہ مائی گاڈ، آج تو میری ہر
خواہش پوری کر دی تو نے۔ آہ آہ آہ!

تیس منٹ تک میں نے خوب سینوں کی چسائی کی۔ آنٹی کے
دونوں سینوں کو لال کر دیا اور لگاتار چوستا رہا، مگر افسوس، دودھ کا ایک قطرہ بھی
نہ نکلا۔ وہ دیوار سے لگ کر میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینوں پر دباتی رہیں اور
چسواتی رہیں۔ سینے چوس کر میں پیچھے ہٹا تو وہ شہوت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھنے
لگیں اور قمیض اتار کر پھینک دی۔ اب وہ آدھی قیامت لگ رہی تھیں۔

میں قمیض میں کھڑا تھا۔ آنٹی میرے قریب آئیں اور گھٹنوں
کے بل بیٹھ گئیں۔ انہوں نے میری قمیض ہٹائی اور میرے سات انچ کے لن کو ترسی ہوئی
نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔ میں نے کہا، آنٹی جان، یہ آپ کا ہی ہے، شوق سے دیکھیں۔ وہ
مسکرائیں اور میرے لن کو اپنے نرم ہاتھوں میں تھام کر مسلنا شروع کر دیا۔ مجھے
اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے ان کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر ان کے بال سہلانے شروع
کیے۔ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے لن کے ٹوپے کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں
مزے سے ہلکا ہلکا سسکنے لگا۔ وہ میرے آدھا کلو کے بڑے کالے ٹٹوں کو ایک ہاتھ سے
سہلا رہی تھیں۔

مجھے مزہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا، آنٹی جان، پورا آپ کا
ہے۔ انہوں نے ٹوپا منہ سے نکال کر کہا، کیا کوئی جلدی ہے؟ مجھے پتا ہے یہ ٹٹوں کی
حدود تک میرا ہی ہے۔ میں مسکرایا اور کہا، جی بالکل، میری آنٹی جان، یہ ٹٹوں کی
حدود ہی نہیں، پورا جسم آپ کا ہے۔ آنٹی نے مسکرا کر دوبارہ آدھا لن منہ میں ڈال
لیا۔ مجھے شدید لذت کا جھٹکا لگا۔ کچھ دیر آدھا لن چوسنے کے بعد انہوں نے پورا سات
انچ کا لن اپنی حلق تک اتار کر سانس روک لی۔ میں مزے میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ
مجھے دیکھ رہی تھیں، اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، جو ان کے گالوں پر ٹپک رہے
تھے۔

آنٹی نے کافی دیر سانس روک کر میرا لن حلق میں پھنسا
رکھا۔ میری بھی شدید لذت کی وجہ سے سانس رکنے لگی۔ جیسے ہی آنٹی نے پورا لن منہ سے
نکالا، میرا سات انچ لمبا اور ڈھائی انچ موٹا لن ان کے تھوک سے لتھڑا ہوا باہر
آیا۔ آنٹی مسکرا کر میرے لن کو مسلنے لگیں اور آنسوؤں سے بھری شہوت بھری نگاہوں سے
مجھے دیکھ رہی تھیں۔ میں بھی مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا۔

آنٹی نے اچھے سے تھوک لن اور ٹٹوں پر ملنے کے بعد
دوبارہ گہری سانس لے کر لن منہ میں لیا اور چوپے لگانا جاری رکھا۔ ان کا منہ کافی
بڑا اور کھلا تھا۔ اب مجھے وہ لذت کا جھٹکا لگنے جا رہا تھا، جس کے بارے میں میں
نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اگلے ہی پل آنٹی نے پورا لن اپنی حلق تک لے جا کر چوپے
لگانا شروع کیا۔ اچانک مجھے ان کی چار انگلیاں اپنے ٹٹوں پر محسوس ہوئیں۔ میں نے
ہلکا سا نوٹس ہی کیا تھا کہ آنٹی نے میرے دونوں کالے چاکلیٹی ٹٹوں کو بھی اپنے منہ
میں لے لیا۔ میں مزے کی حدیں پار کرتے ہوئے غرغرانے لگا اور آنٹی کی آنکھوں میں
آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔

آنٹی کے منہ سے تھوک کی لیس دار دھاریں بہنے لگیں، جو
ان کے بڑے سینوں پر گر رہی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا اور مزے کی وادیوں میں گم تھا۔
آنٹی کے دونوں ہاتھ تھوک سے لتھڑے ہوئے تھے۔ وہ میری گانڈ کو ملنے لگیں۔ مجھے
شدید مزہ آ رہا تھا۔ میرا لن اور ٹٹے ان کے منہ میں تھے۔ آنٹی نے اپنی درمیانی
انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر ملنا شروع کی اور ساتھ ہی انگلی میری گانڈ میں
ڈال دی۔ میں حیران ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔

آنٹی کچھ نہ بولیں، کیونکہ ان کے منہ میں میرا لن اور
بھاری ٹٹے پھنسے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی نشیلی اور شہوت انگیز، آنسوؤں سے بھری
آنکھوں سے مجھے اطمینان دلایا۔ میں نے مسکرا کر اپنی گانڈ تھوڑی ڈھیلی کردی ۔ انہوں
نے پوری انگلی میری گانڈ کی موری میں ڈال دی۔اف اتنا مزا آرہاتھا کہ بیان سے باہر تھا۔ انتہائی لذیذ لمحات
تھے۔ بیس منٹ بیت چکے تھے۔ آنٹی نے چوپے جاری رکھے۔

آپ کو معلوم ہے کہ اگر کوئی عورت ڈیپ تھروٹ دینے کی
ماہر ہو تو اس کے سامنے بڑے بڑے پورن سٹار بھی ڈھیر ہو جاتے

ہیں۔ آنٹی میری گانڈ میں انگلی بھی دے رہی تھیں۔ میری منی ٹٹوں میں بھر چکی تھی اور باہر آنا چاہتی
تھی۔ میں نے کہا، آنٹی جان، میری منی نکلنے والی ہے۔ انہوں نے لن منہ سے نکال کر
ہانپتے ہوئے کہا، منی روکنا مت۔ فل پریشر سے دھار نکالو، میں پی جاؤں گی۔ ایک قطرہ
بھی مت روکنا۔

میں مسکرایا اور کہا، جی آنٹی جان، جیسا آپ کا حکم۔
جلدی سے انہوں نے میرا پورا لن منہ میں اتار لیا اور ٹٹوں سمیت تیزی سے چوپے لگانے
لگیں۔ ان کی تیزی اور گرمجوشی سے میرا جسم کانپنے لگا۔ چند لمحوں بعد، میری منی کی
دھار ان کے منہ میں پھوٹ پڑی۔ آنٹی نے ایک قطرہ بھی ضائع نہ ہونے دیا اور پورا
پینے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں اطمینان اور شہوت کا ملغوبہ تھا۔ جیسے ہی انہوں نے
میرا لن منہ سے نکالا، وہ ہانپتی ہوئی مسکرائیں اور بولیں، واہ، یہ تو واقعی لذیذ
تھا۔

میں نے آنٹی کو دیکھا، جو ابھی تک گھٹنوں پر بیٹھی
تھیں۔ ان کے چہرے پر شہوت اور اطمینان کے ملے جلے جذبات تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ
پکڑ کر انہیں کھڑا کیا اور بستر پر لے گیا۔ انہوں نے اپنی شلوار اتار دی، اور اب
وہ مکمل طور پر ننگی تھیں۔ ان کا گورا جسم، بھرے ہوئےممے ، اور نمایاں گانڈ میرے
سامنے تھے۔ میں نے انہیں بستر پر لٹایا اور ان کے اوپر جھک گیا۔ ان کی گہری آنکھوں
میں دیکھتے ہوئے میں نے ان کے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔ انہوں نے اپنے ہونٹ کھول دیے،
اور ہمارا بوسہ گہرا ہوتا چلا گیا۔ میرا ہاتھ ان کے سینوں پر پھر رہا تھا، اور وہ
ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھیں۔

میں نے اپنا لن ان کی گلابی چوت پر رکھا اور آہستہ سے دھکا دیا۔ آنٹی نے ایک
گہری آہ بھری اور اپنی ٹانگیں چوڑی کر دیں۔ میں نے آہستہ آہستہ دھکے لگانا شروع
کیا۔ ان کا جسم میرے نیچے کانپ رہا تھا۔ ان کی سسکیاں تیز ہوتی گئیں، اور وہ
بولیں، اففف، ملک، تونے آج میری برسوں کی پیاس بجھا دی۔ میں نے اپنی رفتار تیز کی،
اور ہم دونوں لذت کی وادیوں میں گم ہو گئے۔ کچھ دیر بعد، ان کا جسم اچانک اکڑ گیا،
اور وہ زور سے چیخیں، ہائے، بس کر! ان کی چیخ کے ساتھ ان کا جسم ڈھیلا پڑ گیا، اور
وہ اطمینان سے ہانپنے لگیں۔ میں نے بھی اپنی رفتار تیز کی اور چند لمحوں بعد ان کے
اندر ڈسچارج ہو گیا۔ ہم دونوں ہانپتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد، آنٹی نے میری طرف دیکھا اور
مسکراتے ہوئے کہا، ابھی تو میری بھوک باقی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر میرا جسم دوبارہ
گرم ہو گیا۔ میں نے انہیں الٹا لٹایا، تاکہ ان کے گانڈ اوپر اٹھے۔ ان کی گوری اور
چوڑی گانڈ میرے سامنے تھی۔ میں نے اپنا
ہاتھ ان کی گانڈ پر پھیرا اور آہستہ سے ان
کے سوراخ کو چھوا۔ آنٹی نے ایک ہلکی سی سسکی لی۔ میں نے اپنا لن ان کی گانڈ کی
موری پر رکھا اور آہستہ سے دھکا دیا۔
انہوں نے اپنی مٹھی بھینچ لی اور ایک گہری آہ بھری۔میں نے آہستہ آہستہ دھکے لگانا
شروع کیا۔ ان کی گانڈ کی موری کی گہرائی
اور گرمی نے مجھے پاگل کر دیا۔ آنٹی زور زور سے سسکنے لگیں اور بولیں، ہائے، ملک،
یہ کیا کر دیا تونے؟ میں نے اپنی رفتار تیز کی اور ان کے کولہوں کو مضبوطی سے پکڑ
لیا۔ ان کی سسکیاں چیخوں میں بدل گئیں، اور وہ بستر پر ہاتھ مار کر کہتی رہیں، اور
زور سے، بس نہ رکنا! ان کی آواز میں شہوت اور جنون تھا۔ کچھ دیر بعد، میرا جسم ایک
بار پھر لذت کی چوٹی پر پہنچ گیا، اور میں ان کے اندر ڈسچارج ہو گیا۔ آنٹی بھی اسی
وقت ایک زور دار چیخ کے ساتھ ڈھیل پڑ گئیں۔ ہم دونوں بستر پر گر گئے، ہانپتے ہوئے
اور ایک دوسرے سے لپٹ کر۔

کچھ دیر بعد، ہم دونوں نے اپنے کپڑے پہنے۔ آنٹی نے
مسکراتے ہوئے کہا، آج تو میری زندگی کا سب سے یادگار دن بن گیا۔ میں نے بھی مسکرا
کر کہا، آنٹی جان، یہ میری بھی خوش قسمتی تھی۔ ہم نے کھانا کھایا، اور آنٹی نے
مجھے شارٹ کٹ راستے سے شادی والے گھر تک پہنچایا۔ وہاں پہنچ کر ہم دونوں نے شادی
کی تقریب میں شرکت کی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی،
اور میرا دل جانتا تھا کہ یہ لمحات ہم دونوں کے لیے ہمیشہ یادگار رہیں گے۔

Source link

Share on Social Media

Shares

Leave a Comment